Aurangzeb Alamgeer - the real crime

اورنگزیب عالمگیرؒ کا اصل ’جرم‘

اورنگ زیب کا اصل جرم کچھ اور ہے، جس کے لیے ہر ڈھنگ کے سیکولر عناصر، خواہ وہ ہندو ہوں، مغربی مورخین ہوں یانام نہاد مسلمان پاکستانی سیکولر، اسے کبھی نہیں بخشیں گے۔ اس نے ہندو دلدل میں پھنسے مسلمانوں کا تشخص بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ ہندو تو خاص طور پر آتش زیر پا ہیں کہ اورنگ زیب نے ان کی فتح کی امیدووں پر اس وقت پانی پھیر دیا کہ ’’دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام‘‘ رہ گئے تھے۔ عیسائی مؤرخ اس لیے آگ بگولا ہیں کہ تخت دہلی پر عیسائیت کی حکمرانی کے خواب اس نے بکھیر کر رکھ دیے۔ اگر مسلمانوں پر اکبر اور داراشکوہ کی طرح کے چند اور حکمران حکومت کرلیتے تو صحیح تر الفاظ میں نہ آج پاکستان نام کی کسی مملکت کا وجود ہوتا، نہ اسلام کی سربلندی یا سیکولر زم کی مخالفت کے نعرے گونج رہے ہوتے۔ ایک علامت کے طور پر ہمارے جذبات و احساسات پر اورنگ زیب کی گرفت بہت مضبوط ہے کیونکہ اس نے مسلم شعور کو حیات تازہ بخشی، ہماری لڑکھڑاتی قومی شخصیت کو سہارا دیا اور خطرے کو بھانپنے کی ہماری سوچ کو بیداری اور توانائی بخشی۔ اس نے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا کہ جب خونی رشتے بھی اسلام کے خلاف صف آرا ہوجائیں تو ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ عالمگیر کو آزاد روی پر مبنی کفر کی حقیقی فطرت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ یہ اسی نے ہمیں سمجھا دیا کہ مذہبی معاملات میں بگ ٹٹ آزاد روی محض ایک نظریہ یا فلسفہ نہیں، یہ تو قوت اور اختیار کی ڈاکٹرائن (doctrine) ہے جو حکومت پر قبضے سے کم پر راضی نہیں ہوتی۔ یہ تو آپ اسے سینگوں سے پکڑیں ورنہ یہ خود آپ کو اُدھیڑ کر ختم کردے گی۔ بہ ایں ہمہ سیکولر اندازوں کے مطابق اورنگ زیب کورگیدتے رہنا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ اپنے کردار سے لوگوں کو بتاتا رہے گا کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی اصل مسئلہ کیا ہے۔ مزید براں اورنگ زیب محض بادشاہ نہ تھا، وہ ایک نجات دہندہ تھا، ایک دور اندیش انسان تھا، جسے اپنا عظیم و مقدس کردار صاف نظر آرہا تھا۔ اپنے عہد کے منظر نامے پر اس نے اپنا کردار کمال خوبی اور حوصلہ مندی سے ادا کیا۔ فی الواقع اس نے مسلمانوں کو شک، تذبذب اور خوف کی بے سکون کیفیت سے نکالا۔ انہیں یقین و ایمان اور ولولۂ تازہ دیا، جس نے انہیں اپنی نظروں میں باوقار بنادیا۔ آج چار صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے مخالفین کی زہریلی پھنکاریں ثابت کرتی ہیں کہ اپنے وقت کی نیام میں وہ اسلام کی بہترین تلوار تھی۔ اقبال نے کیا خوب کہا: پایۂ اسلامیاں برتر ازوں احترامِ شرع پیغمبر ازوں مسلمان ان کی کوششوں کے نتیجہ میں دنیا میں بہتر مقام پر ہیں۔ رسولؐ اللہ کی شریعت کا احترام انہیں کے رہینِ منت ہے۔ (سیکولرزم مباحث اور مغالطے‘‘ از طارق جان،ناشر،منشورات،لاہور)

Popular Posts

See Also

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...